ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / خلیجی خبریں / ترکی:دہشت گردانہ حملہ، 29جاں بحق، 166زخمی,ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی اکثریت پولیس اہلکاروں پر مشتمل ہے

ترکی:دہشت گردانہ حملہ، 29جاں بحق، 166زخمی,ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی اکثریت پولیس اہلکاروں پر مشتمل ہے

Sun, 11 Dec 2016 22:18:45  SO Admin   S.O. News Service

انقرہ:11/دسمبر(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ایک سپورٹس سٹیڈیم کے باہر دو دھماکوں میں کم از کم 29افراد ہلاک اور 166زخمی ہوگئے ہیں۔ ترک وزیر داخلہ سلیمان صویلو کا کہنا ہے کہ ایک کار بم حملے اور ایک خودکش حملے میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دھماکوں میں مرنے والوں میں دو عام شہری اور باقی سب پولیس اہلکار ہیں۔ زخمی ہونے والے 17افراد کی سرجری کی گئی ہے، جب کہ چھ افراد کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں منتقل کیا گیا ہے جہاں ان کی حالت تشویشناک بیان کی جاتی ہے۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے استنبول میں انسداد دہشت گردی پولیس کی ایک بس کو حملے کا نشانہ بنایا۔ پولیس نے کار بم حملے میں ملوث ہونے کے شبہ میں 10مشتبہ افرادکو حراست میں لے لیا ہے۔ تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
ادھر ترک نائب وزیراعظم نعمان قورتولموش نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کار بم دھماکے کے 45سکینڈ کے بعد ایک خود کش بمبار نے بھی خود کو دھماکے سے اڑا دیا جب کہ وزیر ٹرانسپورٹ احمد ارسلان کا کہنا ہے کہ حملہ استنبول میں ایک اسٹیڈیم کے باہر کیا گیا جہاں پولیس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ترک صدر طیب رجب اردوگان نے ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے پولیس اور سولین کوبزدلانہ حملے میں نشانہ بنا یا ہے، تاہم انھوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ انھوں نے اسے ایک دہشت گردانہ حملہ قرار دیا۔ صدر نے تمام زخمیوں کو فوری اور بہترین طبی سہولیات مہیا کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔اس سے قبل وزیرِ داخلہ نے پارلیمان میں ایک بیان میں بتایا تھا کہ حملے میں 20پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔وزیرِ داخلہ سلمان صولو نے بتایا کہ ابتدائی شواہد کے مطابق ایک کار بم کے ذریعے پولیس کی بس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ بیشکتاش سپورٹس سٹیڈیم میں ایک فٹبال میچ ختم ہونے کے آدھے گھنٹے کے بعد یہ دھماکہ ہوا۔بیشکتاش سپورٹس سٹیڈیم استنبول کے ٹقسیم سکوئر کے قریب واقع ہے۔ترکی میں گزشتہ کچھ عرصے میں شدت پسندوں کی جانب سے حملوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔


Share: